
خوشی کہاں چھپی ھوتی ھے، اپنے ساتھ چند ایک آپ بیتیاں بتاتا ھوں- ۲۰۱۱ میں ، مجھے ایک دوست کے ساتھ یورو ٹری سے پیرس سے جنیوا جانے کا اتفاق ہوا- چار گھنٹے کا سفر تھا- جنیوا پہنچے تو بھوک لگ رہی تھی -ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلے تو بالکل سامنے میکڈونلڈ تھا- ہم اندر چلے گئے- آرڈر دے کر ہم ریسٹ روم کی طرف گئے وہاں کوئی پچیس تیس سال کا نوجوان ( بعد میں پتا چلا ہندوستانی ھے)صفائی کر رھا تھا- میرے دوست نے حال چال پوچھنےکے بعد سوال کیا کہ جنیوا میں کیا کچھ ہے دیکھنے کے لائق؟ جواب آیا
” پتا نہی لوگ اپنے چنگے بھلے مُلکاں دی رونق چھوڑ کر، ایتھے کی ویکھن آ جاندے نے- ایتھے کچھ وی نئی ویکھن والا”- اس کی اکتاہٹ اور جنیوا سے بےرُخی میں زندگی کا فلسفہ چھپا ہے-اس کی مایوسی اور اداسی سے میں نے جانا کہ خوشی کا تعلق اندر سے ھے- اپنا گھر، بچے، صحت، نیک نیتی، شکرگزاری یہی کافی ھے خوش ہونے کے لئے- نہ جگہ سے فرق پڑتا ھے، نہ کھانے پینے سے-خوشی اندر سے پھوٹتی ہے-
سروس کے شروع کے پانچ چھ سال بہاولپور میں پوسٹنگ رہی – چولستان کی تپتی ریت سے خوب یارانہ رھا- ریکی ، ایکسر سائز کے لئے ٹامے والی اور دراوڑ فورٹ درجنوں بار گئے- دراوڑ فورٹ کے باہر ایک نوجوان چرواھے کو دو تین بار دیکھا جو ٹوبے کے اوپر بیٹھا مزے سے بانسری بجا رھا ھوتا – جب بھی ملاقات ہوئی اس سے حال ضرور پوچھا- بہت مطمئن تھا اپنی زندگی سے- بانسری بجاتے ہوئے اس کے چہرے کی خوشی دیدنی ہوتی تھی- اتنی شدّت کی گرمی ، سینکڑوں میل تک نہ سایہ، نہ پانی لیکن بھر پور خوشی –
میری خوشی دو جگہوں میں چھپی ھے – چونڈہ کی پرسکون فضا میں اور فوجی زندگی کے یادگار لمحوں میں-چونڈہ میرا گھر ھے- میرے والدین ہیں، بھائی ھے، دوست ہیں – سب کچھ ھے-اور فوج میرا طرز زندگی – چالیس سال سے زائد عرصے سے فوج کے ساتھ رفاقت میرا غرور بھی ھے اور سکون بھی-پی ایم اے میں گزرے شب و روز اور بعد کی فوجی زندگی کی کہانی کا ایک ایک لمحہ فوجی افسر کے لئے سرمایہ حیات اور باعث فخر ہوتا ہے- پی ایم اے انتہائی سادہ اور پروقار زندگی گزارنے کا ہنر سکھاتا ھے-
تربیت کے دوران انتہائی غیر اہم نظر آنے والی چیزیں، آنے والی زندگی کے لئے بہت اچھے ، گہرے اثرات ڈالتی ہیں -پی ایم اے میں ہر ویک اینڈ پر باربر شاپ پر بالوں کا چڑھاوا ضروری ھے-آپ حجامت بنوانے نائی کے پاس جاتے ہونگے- پی ایم اے میں "ھیئر کٹ ” کے لئے ” بابر شاپ ” جاتے ہیں-اس عظم فوجی درس گاہ میں تسموں اور بٹنوں کو احترام کا اعلی ترین درجہ حاصل ہے- نہ تسموں میں بل رھنے دیتے ہیں نہ ہی بندے میں- بٹن اور کیڈٹ دونوں کو ٹوٹنے کی نہ اجازت ہے نہ ہی کوئی گنجائش- کھلے آسمان کے نیچے کیڈٹ ٹشن ٹیٹ ہو کے ہی نکل سکتا ہے- یا تو یونیفارم ، پی ٹی کٹ میں یا پنٹ کوٹ، ٹائی اور تسموں والے جوتوں کے ساتھ-میں اگر پی ایم اے نہ جاتا تو میری زندگی ادھوری رہتی- پی ایم اے میں سینڈل کو وہی مقام حاصل ہے جس کا سینڈل حقدار ھے- سینڈل کا داخلہ پی ایم اے میں ممنوع ہے-آج دنیا جہاں کے سیٹلائیٹ آسمان کی وسعتوں میں موبائل سگنل کے پیچے لڑا رھے ہیں لیکن مجال ہے یہ سگنل پی ایم اے کے قریب بھی پھٹک پائیں – ہمارا دور تو ویسے بھی خط و کتابت کا دور تھا- آج جب دنیا بھر میں ہر روح موبائل سے گھائل ہو چکی ہے، پی ایم اے اس بیماری سے بچا ھوا ھے- کیڈٹ کی اچھی تربیت اور صحت کا یہ بھی ایک راز ھے-تربیت کا ہر مقام کیڈٹ کے لئے واجب احترام ھے- ڈرل سکئیر، پی ٹی گراؤنڈ، پی ایم اے روڈ ، فائرنگ رینجز، ویپن ٹرینگ ایریا ، کلاس رومز ، بٹالین میس ان سب کے احترام کے درجے اور طریقے متعین ہیں- کہیں دوڑنا ہے، توکہیں مارچ کر کے گزرنا ہے-موقع کی مناسبت سے فرنٹ رول ، پش اپ کی بھی ضرورت پڑتی ھے-میس میں داخل ہونے سے پہلے قائد اعظم کی تصویر کو احتراما ، بازو جسم کے ساتھ جوڑ کر پنجوں پر کھڑے ہو کر ، تعظیم دینا لازمی ھے-سبزے کی حفاظت ، کیڈٹ کے اخلاقی فرائض میں شامل ھے- جگہ جگہ بورڈ لگے ہیں کہ "شاٹ کٹ منع ھے” -شادی کی تقریبات میں "مائیوں” کی رسم کی جو اہمیت ہے ، بلکل ایسے ہی پی ایم اے میں ” ٹی بریک” کو خاص درجہ حاصل ہے- ایڈوینچر سے بھرپور اس مختصر وقفے کی داستان لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے-
ہمارے وقتوں میں ٹی بریک تک پہنچنے سے پہلے ایک ڈرل ، ایک پی ٹی ،دو پریڈ انگلش کے اور درمیان میں ایک خالد پلاٹون پڑتی تھی- خالد پلاٹون ہمارے کورس کی "ساس” تھی- ان کے چار، پانچ سنٹر فارورڈ ،جو کہ ٹی بریک والے پورے کے پورے کریٹ کو ہی لے کر غائب ہو جاتے تھے، قد و قامت کے لحاظ سے چھ فٹ ایک انچ سے بھی اوپر تھے – ہمیں آج تک اس راز کا پتا نہیں چل سکا کہ ٹی بریک کے ھوٹر بجنے سے عین دو منٹ پہلے اس پلاٹون کو کیسے چھوڑ دیا جاتا تھا- شاید ہمیں یہ سمجھانا مقصود تک کہ میدان جنگ میں ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے -یہ ایک سو بیس سیکنڈ کا فرق ہمارے اوپر کیا قہر ڈھاتا تھا اس کی تفصیل میں گیا ، تو میں "رو” پڑوں گا- پی ایم اے کی ہر چیز میں انتہاء کا نظم و ضبط تھا ، حتی کہ بال کٹوانے اور پیرا سلوپ پر فرنٹ رول کے لئے بھی لائن بنتی تھی- اللہ جانے یہ ٹی بریک والا کیا معاملہ تھا- اس کو پی ایم اے اتنا ہلکا کیوں لیتا تھا- دودھ اور روح افزاء والے گلابی محلول میں، کبھی کبھی سفید نکر شرٹ والوں کے گرنے کا نظارہ ، یاد کر کے آج بھی چہرے پر مسکراہٹ کھل اٹھتی ہے- پی ایم اے میں کیڈٹ کی زندگی کمپنی لائن ( رہائشی کمرے) ، ڈرل اور پی ٹی گراؤنڈ، سٹڈی ھالز، ویپن ٹرینگ ایریا ، پی ایم اے روڈ اور mess کے درمیان گھومتی ہے- ان تمام مقامات پر کیڈٹس کو ہنگامی صورتحال کا سامنا رہتا ہے اور اسی نسبت سے کیڈٹ کی Condition تبدیل ہوتی رہتی ہے- یہ سارے میدان جنگ ( battle fields) تقریبا ساتھ ساتھ ہیں – صورتحال گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشا سے باہر نہیں نکل پاتی ہے- پی ٹی کِٹ ، پی ٹی، یونیفارم، ، ڈرل، رائفل ، ڈانگری، فائرنگ ، میس، کلاس رومز، اِنگل ہال ( الف کی نیچے زیر ھے) – یہ ساری ٹرانزیشین بالکل آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کی طرح منٹوں میں انجام پاتی ہیں-
جلدی چل، قدم مارچ ،mile ٹیسٹ ، پش اپ ،والے دو پریڈ کا پڑاؤ ناشتے سے پہلے پڑھتا ہے- ان دو پیریڈز کا کنٹرول پی ایم اے کے ڈرل اور پی ٹی سٹاف کے ہاتھ میں ہوتا ہے- خداد داد صلاحیتوں کے مالک ڈرل سٹاف کے” ووکل کارڈز” ( vocal cords) کو اللہ تعالی نے بہت وسعت بخش رکھی ہے- کیڈٹ کا ہر عمل سٹاف کے انتہائی نپے تلے اور پر جوش caution کا فوری ردّعمل ہوتا ہے- یہ سُر اور تال کا خوبصورت امتزاج ہے-سٹاف کے caution کی گونج سے کیڈٹ اس سرعت سے گھٹنا اوپر لے جاتا ہے کہ عقل بھی حیران رہ جاتی ہے کہ یہ وہی نوجوان ہے جو پی ایم اے پہنچنے سے قبل اپنے گھر میں دن گیارہ بجے سو کر اُٹھا کرتا تھا-
پی ٹی اور ڈرل کے پریڈ میں آٹھ دس ،نظر وٹوؤں کا ایک ٹولہ زخمی پاؤں، یا زخمی بازو پر پٹیّ چڑھائے ، مرجھائے ہوئے چہروں اور دل میں خوشی کے پھوٹتے لڈو ؤں کے ساتھ ، سائیڈ پر کھڑا ہوتا ہے – یہ وہ ہلکے پھلکے بیمار کیڈٹ ہیں جنہیں ڈاکٹر کی طرف سے ایک آدھ دن ٹریننگ سے پرہیز کا مشورہ دیا گیا ہوتا ھے- پی ایم اے میں بیمار ہونے کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ آپ جسمانی ورزش کرنے کے اگر قابل نہیں بھی تو کیا ہوا، دیکھ تو سکتے ہیں- تو یہ وہی "ابزرور گروپ ” ہے-
پی ایم اے میں پہلی terms میں طاقت کا توازن کیڈٹ کے حق میں نہیں ہوتا اور اوپر سے ساری سڑکیں بھی تقریبا پنتالیس ڈگری کے زاویے پر بنائی گئی ہیں- زیادہ تر نالے بھی پی ایم اے کے اندر ہیں یا گیٹ کے بالکل ساتھ- موسم کی شدّت اور ٹھنڈے پانی کے علاوہ جونیئر ٹرم کے کیڈٹ کو سینئر کیڈٹ ، ڈرل سٹاف کے درمیان navigate کرنا پڑتا ہے-
اللہ کی دی ہوئی بہت ساری نعمتوں میں سے ایس آئی کیو ( SIQ) sick in quarter کا کیڈٹ کی زندگی میں الگ ہی مقام ھے- ڈاکٹر کے لکھے ہوئے تین الفاظ "SIQ” کا کوئی نعم البدل نہیں- یہ الفاظ راحت بھی ہیں، اور کیڈٹ کی خوشی کی انتہاء بھی-اس ڈاکٹری احسان کی مدّت ایک دن سے لیکر تین دن تک ہوتی ہے- یہ تین الفاظ (ایس آئی کیو) کیڈٹ کے ارد گرد اتنا مضبوط حصار کھینچ دیتے ہیں کہ اس کے اندر کوئی نہیں گھس سکتا-
یہ مکمل آرام کی چٹ ہے- لیکن اس چٹ کے حصول کے لئے 102 بخار سے کم بات نہیں بنتی-
نعمتوں کے لحاظ سے کیڈٹ کی دوسری بڑی خوشی سافٹ dietہے- یہ وہ کنڈیشن ہے، جہاں ڈاکٹر ،کیڈٹ کو کھانے میں سفید چاول تجویز کرتا ہے- جی، یہ وہی سفید چاول ہیں جسے ہم دال کے ساتھ نوش فرماتے ہوئے منہ بسورتے ہیں- سفید چاول کی سنگل پلیٹ جب ڈائنگ ٹیبل پر آتی ہے تو اردگرد بیٹھے پلاٹون میٹ حسرت بھری نگاہوں سے اسے کیسے گھورتے ہیں، اس کا اندازہ آپ نہیں لگا پائیں گے-
Excuse Shoes بھی ڈاکٹری عطا ہے – اس کنڈیشن میں ڈرل شوز اور پی ٹی شوز کا استعمال منع ہے- سادہ الفاظ میں آپ ایک ، آدھ دن ” ابزرور گروپ ” میں اپنے ساتھیوں کی درگت بنتے دیکھیں گے