
بے بسی
پیٹ خالی ہو اور کھانے کو کچھ نہ ہو تو ،قوت برداشت سے گزارہ ہو جاتا ہے -لیکن ایسے میں اگر کہیں سے مزیدار پکوان بننے کی خوشبو آ دھمکے تو خالی پیٹ میں سونامی آ جاتا ہے –
نواز حسین تین سال پہلے گاؤں سے نقل مکانی کر کے بیوی اور دو بچوں سمیت پنڈی آ گیا تھا– خود مزدوریکرتا اور بیوی محلے کے گھروں میں کام کر تی –ایک کمرے کے مکان میں زندگی بسر ھو رہی تھی –گھر کا کرایہ،بجلی کا بل اور مہنگائی نے کڑے امتحان میں ڈال رکھا تھا–صرف رات کو دو تین روٹیاں اور پانی نما شوربہ اور ناشتے میں چائے اور رس– بیوی اور دونوں بچوں کے کمزوری سے منہ نکل آئے تھے–پچھلے ھفتے تینسال کا بیٹا مشہود بیمار ہوا تو ٹھیکیدار سے آٹھ سو روپے ،ایک دن کی مزدوری ایڈوانس لے کے دوائیلائے تھے– پانچ سالہ گڑیا کو سکول میں بھیجنے کا فیصلہ اگلے سال تک ملتوی کر دیا تھا-نواز حسین نے کچھعرصے سے عادت بنا لی تھی، وہ دن بھر کی مزدوری کے بعد سیدھا گھر نہیں جاتا تھا بلکہ گلی کی نکڑ پر ہی ایکڈھابہ تھا، وہاں بیٹھ کر انتظار کرتا کہ بچے سو جائیں تو گھر جائے– اس کی بیوی گھر میں جو کچھ تھوڑا بہتہوتا، بچوں کو کھلا دیتی– پیٹ تو نہیں بھرتا تھا لیکن بچے سو جاتے تھے–
آج جب نواز گھر پہنچا تو اسے جھٹکالگا، خلاف توقع بچے ابھی تک جاگ رھے تھے– رب نواز نے بیوی کی طرف استفسار بھری نظروں سےدیکھا– سکینہ ، نواز حسین کی بیوی ،اپنے آنسو ضبط نہ کر پائی، روتے ہوئے کہنے لگی، آج بالکل ہی بھوکےہیں، اس لئے نیند نہیں آرھی– نواز حسین چارپائی پر لیٹ گیا، منہ پر کپڑا رکھا اور سسکیاں لینے لگا– قریب ہی شادی ھال تھا، جہاں سے آتشبازی اور بینڈ کی آواز اور کھانوں کی انتہا انگیز خوشبو آ رھی تھی– وہ قدرت کے اس انصاف پر ھمیشہ حیران ہوتا تھا کہ کھانوں کی اشتہاء انگیز خوشبو ہر جگہ پہنچتی ہے– آپکہیں بھی ھوں، یہ خوشبو ڈھونڈ ہی لیتی ہے–