
سوچ کو اگر وسیع میدان مہیا نہ کیا جائے تو یہ بند دروازوں کے اندر چڑچڑے پن کا شکار ہو جاتی ہے- انسانی ذہن مشاھدہ، مطالعہ کے ارد گردپروگرام کیا گیا ہے-ہم جو پڑھتے ہیں جو دیکھتے، سنتے ہیں ، اسی کی بنا پر اپنی رائے بناتے ہیں -علم اور معلومات کا اضافہ انسانی ذہن کو جلا بخشتے ہیں -محدود مطالعہ اور مشاھدہ ایک محدود سوچ اور یک طرفہ نقطہ نظر کو جنم دیتا ہے- اگر آپ چند ہم خیال دوست ایک ہی مسئلے پر ایک ہی جگہ بیٹھ کر روز بحث کرو گے تو نتیجہ وہی نکلے گا-
جب تک مزید تحقیق نہیں ہو گی، کوئی دوسری دلیل نہیں سنیں گے، سوچ اٹکی رھے گی- ھمارے ارد گرد کا ماحول ہمارا سب سے بڑا سکول ہوتا ہے- آہستہ آہستہ انسان کا پیشہ اس کی عادات اور سوچ پر حاوی ہو جاتا ہے- جیسا کہ وکیل اچھے دلائل دینے کی استطاعت رکھتا ہے، استاد اخلاقیات اور درس کے قریب ھوتے ہیں، ڈاکٹر شفا اور ھمدردی سے جڑا ہوا ہوتا ہے، پولیس والے میں کھوج لگانے کی حس زیادہ ہو گی، تاجر کی سوچ نفع و نقصان کے تابع ہو گی-
بڑے بڑے سیاسی فلسفے، انسانی حقوق کے نعرے مارے والی تنظیمیں ، کاروباری حضرات , تماشہ اور مداری گر انسان کے محدود علم اور مشاہدے کا فائدہ اٹھاتے ہیں –
آئٹم کا نام اور پیکنگ، اس کی کوا لٹی کا تعین کرتی ھے-ریڑھی پر بک رھا ہو تو نان کباب، مکڈونلڈ سے لیں تو میک عریبین-ڈھابے سے لیں تو مغز اور ریسٹورنٹ میں کھائیں تو برین مسالا- صرف نام کی تبدیلی اور بیچنے کی جگہ بدلنے سے گاہگ کا نقطہ نظر بدل کر زیادہ پیسے کمائے جا سکتے ہیں-
برانڈڈ کمپنیاں وہی سامان جو عام مارکیٹ میں سستا بکتا ہے اسے اپنے نام سے جوڑ کر مہنگا بھیجتی ہیں – اعلی سطحی حکومتی یا ، سرکاری عہدے پر براجمان ہو کر عوام کا استحصال کرتے چلے جائیں تو ریاستی مفاد- ورنہ قانونی جرم-
دلیل ،علم کی محتاج ھے – علم بہت ساری انفارمیشن میں سے کشید کیا گیا عرق ہے- ایک واقعے کے پیچھے بہت سارے عوامل اور واقعات ہوتے ہیں جو کہ ایک لڑی کی شکل میں پروئےھوئے ھوتے ہیں – مسئلے کا حل تبھی ممکن ہو پاتا ہے اگر ان وجوھات کا مکمل جائزہ لیا جائے جو سوشل سسٹم پر اثر انداز ھوتی آ رھی ہیں نہ کہ محظ کسی سیاسی بیان یا ایک واقعے کی مختصر اور غیر مصدقہ اطلاع پر نتیجہ اخذ کر لیا جائے-
کسی معاملے پر فوری، جارحانہ اور تنقیدی بیان دراصل پہلے سے ذھن میں موجود خیالات، نقطہ نظر کا اظہار ہوتا ہے، جو کہ ایک جزباتی عمل ہے نہ کہ حقائق ہر مبنی جائزہ – موجودہ دور میں اسے پوسٹ ٹرتھ کہتے ہیں – حقائق کو نظر انداز کر کے جزبات کو ٹارگٹ کرنا
جیسا کہ آجکل مصنوعی ذھانت ہماری گفتگو کا موضوع ھے-مصنوعی ذھانت کے بانی کہتے ہیں کہ مصنوعیذھانت لوگوں کو بے روزگار تو کرے گی ہی، اور بے انتہاء مسائل کا شکار کر دے گی– اگر ایسا ہے تومصنوعی ذہانت کی ترقی کے کیوں گن گائے جائے رھے ہیں- دوسرا نقطہ نظر یہ ھے کہ مصنوعی ذھانت دنیا کو انقلابی تبدیلیاں دینے جا رہی ہے- پلک چھپکنے میں مسائل حل ھونے لگیں گے-