
اس وقت ہم گزرے ہوئے کل کی سادگی اور آج کی چالاکیوں کی بات کر رہے ہیں- آنے والے کل کے بارے میں آرٹیفیشیل اینٹیجینس ( AI) کی تیزی سے ہو رہی ترقی کی وجہ سے صیح صیح ٹیوہ لگانا بہت مشکل ہے-
مغرب میں میڈیکل سائنس ابھی ابتدائی منازل طے کر رھی تھی جب ہمارے ہاں یونانی دواخانے نے شعبہ طب میں انقلابی کامیابیاں حاصل کر کے دنیا کو حیران کر دیا-
ماضی میں ڈینٹل سرجن نہیں ، دندان ساز ہوتے تھے- دانت کو زنبور سے کھینچ کا نکال دیتے تھے- کمزور دل افراد یہ منظر دیکھنے کی بھی سکت نہیں رکھتے تھے- مریض کو دانت کی مرمت کے بعد اس کے گھر والے باقاعدہ اٹھا کر کے لے جاتے تھے اور دندان ساز اس جادوگری کی اچھی خاصی قیمت وصول کرتا تھا- دانتوں کی حفاظت اور ایک دوسرے کو چکمہ دینے کے لئے منجن استعمال ہوتا تھا- اب تو سوشل میڈیا نے معاملات کو آسان بنا دیا ہے، بھلے وقتوں میں چالاکی کے لئے بول بچن اور منجن سے ہی سارے کام نکلوائے جاتے تھے یا بہت ہوا تو شاعری کر لی- سیاست کی بہترین چال افہام و تفہیم اور گٹھ جوڑ ہوتا تھا- چھانگا مانگا کا دور بھی آیا- پھر فارورڈ بلاک بننے شروع ہو گئے- سینٹ کی سیٹ آج بھی البتہ نقد پر ہی ملتی ہے- پھر دھڑا دھڑ پارٹیاں بننے لگیں-اس کے بعد پھر پتا نہیں چلا -اب تو U ٹرن، دھرنے، لانگ مارچ، شارٹ مارچ، علامتی ہڑتال، پر امن احتجاج ،ھیش ٹیگ، میمز وغیرہ کا استعمال ہو رہا ہے-
قصبوں اور دیہاتوں میں بڑے بڑے مارٹ اور میڈیکل سٹور نہیں بلکہ منیاری اور حکیموں کی دوکانیں ہوتی تھیں جہاں خوبصورتی اور حکمت پناہ لئے ہوئیے تھی- حکیم بیماریوں کے لئے خمیرہ گاؤزبان ، شربت فولاد، مربہّ ھریڑ ، گل قند ، ملٹھی کا کثرت سے استعمال کرتے- منیاری کی دوکان کی سب سے اہم چیز ” تبّت سنو” کریم تھی- بعد میں ” فئیر اینڈ لولی” بھی تبت سنو سے آ ملی- یہ دونوں کریمیں ، کالے رنگ کو گورا کرتیں اور گورے نوں چن ورگا- آج کل تو بیوٹی پارلر والے کالے رنگ کو تھوڑی دیر کے لئے گورا کرنے کے ہزاروں روپیہ لے رہے ہیں-
اب تو وائرس اور میڈکل سائنس دونوں ترقی کر کے بہت آگے نکل گئے ہیں- نہ وائرس ہاتھ آ رھا ہے نہ ڈاکٹر-پرانے زمانے میں وائرس بھی مریضوں کی طرح بول بچن سے سمجھ جاتے تھے- حال ہی میں کرونا وائرس نے اکیلے دنیا کی آٹھ ارب آبادی کو تگنی کا ناچ نچا دیا – عالمی شعبہ طب سست نکلا- ویکسین کی تیار ی میں دو سال لگا دیئے- اب شور ہے وہ بھی جعلی تھی لیکن بل گیٹس کہتا ہے ایسا نہیں تھا-
ستر کی دھائی میں بھی ہمارے پاس کسی allopathic دوائی کا patent نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے-
پاکستان میں پہلے معاملات پیچیدہ ہوتے ہیں ، پھر بحرانی شکل اختیار کرتے ہیں آخر میں سنگین ہو کر خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں- ہماری ماضی کی حکومتوں نے حالات کو سنوارنے کے لئے اب تک کا سب سے بہترین کام یہی کیا ہے کہ حالات کو الفاظ کا صحیح صحیح عملی جامہ پہنانے میں ہمیشہ کامیاب رہی ہیں- ڈاکو پہلے منہ لپیٹ کر پیدل آتے اور چند کلو اناج اٹھا کر نکل جاتے تھے- اب دفتروں میں بیٹھ کر لاکھوں ٹن گندم ہڑپ کر جاتے ہیں اور کسان کو بھنک تک نہیں پڑنے دیتے- سیاست ایک نئی شکل اختیار کرتی نظر آ رہی ہے- میڈیا کی عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کی طاقت ، سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے پاس جا چکی ہے، جو کہ ایک بہت ہی خطرناک عمل ہے- جس کا نتیجہ ہم انفارمیشن ڈس آرڈر کی شکل میں دیکھ رھے ہیں –
ہر کوئی دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑا رھا ہے- سیاست ان دخل اندازیوں کے باعث لاچار ہو چکی ہے- آنے والا کل کیسا ہو گا؟ اس کا اندازہ لگانا فی الحال مشکل ہے-