
مجھے زندگی میں صرف ایک سفر کرتے ہوئے خوشی ملتی ھے وہ اپنے آبائی گھر جانے کی طرف کا راستہ ھے-توسی جنا مرضی پڑھ لکھ جاؤو، جنی آں مرضی سیراں کر لو، پوؤں چوؤں ( گھوم پھر کر) کے مڑنا تے ایتھے ای جے”
یہ پنجابی کا فقرہ میرے ایک دوست نے فون پر مجھ سے بولا تھا- اس زمانے میں موبائل نہیں تھا- میں دفتر میں مصروف تھا، گھنٹی بجلی اور ایک پرانا دوست لائن پر تھا- حال چال کے بعد، اس نے فون کرنے کی وجہ بتائی، میں نے نوٹ کر لی- عین فون بند کرنے سے پہلے پتا نہیں، اسے کیا خیال آیا، اس نے یہ فقرہ بولا- جب بھی گھر واپسی کے لئے جی ٹی روڈ پر چڑھتا ہوں ، ان الفاظ کی گونج مجھے سنائی دینے لگتی ھے- مجھے زندگی میں صرف ایک سفر کرتے ہوئے خوشی ملتی ھے وہ اپنے آبائی گھر جانے کی طرف کا راستہ ھے- سفر سے مجھے کوئی لگاؤ نہیں – میں طبیعتا واسکوڈے گاما نہیں ہوں- آرام پسند آدمی ہوں ، سیرو سیاحت کی بجائے لیٹ کر کتاب پڑھنا اور واک یا جاگنگ اچھی لگتی ھے-
قدرت نے بچپن اور لڑکپن بے فکری کے لئے رکھا، جوانی محنت اور مستقبل کی فکر میں گزر جاتی ہے بڑھاپا، واپسی کے لئے ،گمشدہ راستے تلاش کرتا ہے- کچھ خوش قسمتوں کو وہ راستے مل بھی جائے ہیں کچھ ادھوری خواہش لئے دنیا سے چل بستے ہی –
فوجی زندگی میں suffer اور سفر کرنے کا بہت موقع ملا- فوجی افسروں کے بستر بند ہمیشہ تیار اور بٹوے خالی ھوتے ہیں- سروس کے ابتدائی دنوں میں گھر بعد میں پہنچتے تھے، اگلی فوجی مشق کا نیوتا پہلے پہنچ جاتا تھا- اب مشقیں تو کم ہیں لیکن شمالی ، جنوبی وزیرستان ، بلوچستان کے علاقوں میں باقاعدہ جنگ جاری ھے- پچھلے تئس سالوں میں ہر افسر اور جوان تین تین، چار چار بار ان علاقوں میں فرائض انجام دے چکے ہیں-پوری لائن آف کنٹرول، پوری مغربی سرحد باقاعدہ active operation والی پوسٹنگ ھے- یعنی 24/7 باقاعدہ جنگ جاری ھے- کوئٹہ، کراچی، پشاور کہنے کو شہر کی ڈیوٹی ھے لیکن یہاں کام اور بھی چیلنجنگ ھے-دوران سروس میس کا بل دیکھ کر خواہ مخواہ میس حوالدار پر غصہ آتا تھا- حالانکہ قصور اس کا نہیں ہمارا اپنی ہی ہوتا تھا- رجسٹر پر پائی پائی کا حساب دیکھ کر پھر اپنا سا منہ لئے شرمندہ ہونا پڑتا- کم بخت ماچس تک کا حساب رکھتا-کبھی بھولے سے بھی چائے تک مفت نہ مل پائی- فوجی مشقوں میں کمپنی کمانڈروں کا لنگر کے کھانے پر انحصار ہوتا ہے- میں صدقے جاؤں اس کی بھی پیمنٹ لیتے ہیں-
چھٹی ملنا، جوئے شیر لانے کے مترادف تھا- ہر دفع چھٹی کے لئے نیا بہانا اور صاف ستھرا جھوٹ چاہیے ہوتا تھا- چھٹی ملنے کا مرحلہ طے کرنے کے بعد اگلا کام گھر پہنچنا ہوتا تھا-ہمارے زمانے میں سڑکوں کی وہی حالت تھی جو آجکل معیشیت کی ھے- سمجھ نہیں آتی تھی کہ بس آگے جا رھی یا پیچھے- وہ طیاّروں کا دور تھا، خان طیّارہ، وڑائچ طیارہ، ملنگی طیاّرہ، اور پائلٹ منہ میں سگریٹ دبا کر بس چلاتا تھا- بدقسمتی سے ڈرائیور فزکس کے کلیات سے مکمل نابلد تھے اور شاہراہ ریشم پر ستر، اسی کلومیٹر کی رفتار سے ہی گاڑی چلاتے اور موڑ بھی کاٹتے – میں حیران ہوں نیند کتنی ظالم چیز ہے، کچھ مسافر زندگی موت کے اس سفر میں بھی آرام سے سو لیتے تھے-
سروس کے پہلے چار سال چولستان کے تپتے صحتراؤں میں تقریبا 45-48 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی میں گزارنے کے بعد اگلی پوسٹنگ کامری/ منی مرگ میں ہو گئی جہاں درجہ حرارت منفی دس، بارہ وغیرہ کے قریب ہوتا ھے-