
پیدا ھونے سے لیکر اس دنیا سے کوچ کرنے تک انسان کی زندگی پرسینکڑوں ، ھزاروں لاکھوں افراد اثر انداز ھوتے ہیں۔ گھر ، ھمسائے، محلے ، گاؤں اور قصبوں میں کچھ لوگ براہ راست اپ کی پرورش اور زندگی پر اثرانداز ھو رھے ھوتے ہیں اور کچھ عمومی طور پر معاشرے کے ایسے کردار ھوتے ہیں جو بلواسطہ انسان کےارتقائی عمل پر نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ بڑے شہروں میں یہ کردار ھوتے ضرور ہیں لیکن ایک جگہ منتج نھی ھوتے – دیہاتوں اور قصبوں میں ان کرداروں کا عام آدمی کی زندگی پر گہرا اثر ھوتا ھے۔
بہت سے نام ھیں جو کسی نہ کسی حوالے سے کم از کم میرے تحت اشعور میں بھی بیٹھے ھوئے ہیں۔ کچھ تو صرف عکس کی حد تک موجود میں اور کچھ باقاعدہ میری سوچ ، رھن سہن ، طور طریقے پر کسی نہ کسی حوالے سے ایسے اثر انداز ھوئے کہ مستقل عکس چھوڑ گئے۔ جو ملتا گیا اس کا لطف اور جو نہ ملا اس کا دکھ ساتھ ساتھ چلتا رھا – اس ملنے اور نہ ملنے درمیان ایک شاندار زندگی ملی – ایسی شاندار کہ میں شکر ادا کرنے سے قاصر ھوں – عطا تھی کہ کوئی حد ھی نہ تھی۔ اسی راستے میں ماں باپ، دوستوں کا پیار، کھیل کود، تعلم بھی تھے جو یقینا میری کامیابی میں ممد ثابت ھوئے
بہت کچھ نقش ھے ذھن پر ، طے در طے ، بہت دور تک، بہت نیچے ملجگی روشی اور نیم اندھرے میں، اللہ کا کرم رھا گھپ اندھیروں سے ھمیشہ دور رکھا،کچھ بچپن اور بعد میں کالج اور پی ایم اے کا لڑکپن- یو نیورسٹی میں پہنچتے پہنچتے بڑھاپے نے سر آ لیا۔ لیکن یہ وہ عطا تھی جو بہت سی دوسری عطاؤں کی طرح بے مثال تھی – ذھنی کشادگی، پر رونق زندگی جس کی خواھش دل میں تھی لیکن زبان پر نا ا سکی۔
زندگی کا سب سے دلکش وقت جوانی ہے ، صحت، امیدیں، خواب، کچھ کر گزرنے کی دھن اور کام کرنے کا جنون- ھمارا یہ جنون آئ ایس پی آر میں کام کر کے پورا ہوا- صحافت، صحافی ، ان سے بات کرنا اور ان سے سیکھنا، یہ ایک انتہائی یادگار دور تھا- بہت کچھ سیکھنے کو ملا- صحافت بہت وسیع، گہرا اور پر مغض پیشہ ہے- اگر کسی نے اس پیشے کی مستعدی اور گہرائی کا اندازہ لگانا ہو تو صرف یہ سمجھ لے کہ روز، ۱۲ صفحے سے لیکر ۲۰ صفحوں تک کا پرچہ خبروں اور ٹیکسٹ کی درستگی کے ساتھ نہ صرف چھپتا ہے بلکہ ملک کے طول و عرض میں سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہر جگہ پہنچا دیا جاتاہے- اخبار میں چھپنے والی ہر خبر گزرے کل سے مختلف ہو گی- رپورٹر سارا دن خبریں تلاش کر کے لاتے ہیں اور پھر چھپنے والے مراحل شروع ہوتے ہیں-اور یہ سلسلہ اج سے نہیں کئی دھائیوں سے جاری ہے- آج تو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے چیزوں کو آسان بنا دیا ہے- پلک جھپکنے میں سینکڑوں میگا بائیٹ ھزاروں میل کا سفر طے کر لیتے ہیں- جب یہ ڈیجیٹل دور کا کہیں نام و نشان نہیں تھا تب بھی صرف صحافت ہی وہ پیشہ تھا جو برق رفتاری سے کام کر رہا تھا- کاتب دن بھر اور پھر رات کو پرچے کی کتابت کرتے تھے، پھر پلیٹیں بنتی تھیں اور اخبار چھپتا تھا- اخبار چھپنے کے یہ پیچیدہ مراحل بغیر تعطل کے پورا سال جاری رھتے ہیں-
ٹیلی ویژن کی نشریات بھی بہت مشکل اور نازک کام ہے- وقت کے مخالف کام کرنا پڑتا ہے، ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے، ایک ایک سیکنڈ کی کوآرڈینیشن کرنی پڑتی ہے-
پاکستان میں روزنامہ نوائے وقت، جنگ اور مساوات نے صحافت کو پروان چڑھایا- پی ٹی وی خبروں سے زیادہ انٹر ٹینمنٹ کا ذریعہ تھا- خبریں لوگوں تک بی بی سی کے ذریعے پہنچتی تھی- آجکل تو انفارمیشن ہوا کی طرح ہر جگہ ہے – وائی فائی – خبر- آگاھی اب زندگیوں کا حصہ بن چکی ھے-آئی ایس پی آر میں گزارے پچیس سال میری زندگی کا وہ اثاثہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں- یہ تمام عرصہ مجھے شعور اور آگہی کے قریب لاتا گیا- میرے اندر سیکھنے کی طلب کو ایسا اجاگر کیا کہ پیاس بجھنے کی نہیں- علم حاصل کرنے اور سیکھنے کی یہ تڑپ ہی میری زندگی اور میرا سکون ہے-