
چونڈہ کا مضبوط حوالہ تو جنگ ستمبر ہے جہاں ورلڈ وار دوئم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی لڑی گئی اور یہ قصبہ بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بن گیا- قصبہ چونڈہ نے پاکستان اور پاک فوج کی بہادری کو بڑی خوبصورتی سے سنبھالا ہوا ہے- یادگار شہداء اور شہداء کی قبریں چونڈہ کے ماتھے کا جھومر ہیں-
اس عظیم قومی اور تاریخی ورثے کو severage system اور آلودگی کا ناقص انتظام کھائے جا رھا ھے-
چونڈہ قصبہ کی نوجوان نسل بہت ذرخیز ہے- اپنی مدد آپ کے تحت لائبریری بنا ڈالی، گلی محلوں کی صفائی خود کر رھے ہیں، پچھلے دو دہائیوں سے ڈسپنسری اور ایمبولینس کی سہولت موجود ہے، گرین پاکستان مہم شروع کر رکھی ہے، قبرستان کو انتہائی صاف ستھرا اور منظم رکھا ہوا ہے- خون کے عطیات دینے کا رواج بہت عام ہے- میڈیکل کیمپ اور فنڈز اکٹھا کر کے ملک کے دوسرے حصوں میں زلزلہ زدگان، سیلاب متاثریں کی متعدد بار خدمت کر چکے ہیں-چونڈہ vibrant Youth کا شہر ہے- پڑھے لکھے نوجوانوں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر بھلائی کا کام کرنے کا ایسا جزبہ شاید ہی ملک بھر کہیں اور دیکھنے میں آیا ھو- یہ بچے مستقبل کے پاکستان کا سرمایہ ہیں، انہوں نے ثابت کیا ہے کہ community work سے مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے- یہ بچے ہر وقت کمیونٹی میں اچھے کام کے لئے کوشاں رہتے ہیں-
برگد ( بوہڑ ) جسے انگریزی میں Banyan tree کہتے ہیں چونڈہ میں کثرت سے پایا جانے والا درخت تھا- بوہڑ اور پیپل عموما اکٹھے پائے جاتے ہیں جبکہ ٹالی اور کیکر اکٹھے خوش رہتے ہیں- چار دھائیاں قبل قصبے کے چاروں طرف بڑے بڑے تالاب تھے جن کے کناروں پر بوہڑ اور پیپل کے درخت تھے-
ڈی سی سکول کی مارننگ اسمبلی اسی پیپل کے درخت کی گھنی چھاؤں میں ہوتی تھی- اس کے ساتھ ہی کیکر کے گھنے درختوں کی ایک لائن تھی ، جس کے نیچے ہماری کلاس ہوتی تھی- انگلش کے حروف تہجی انہیں کیکر کے درختوں کے نیچے بیٹھ کر لکھنا سیکھے ، اسی لئے ہماری انگلش آج تک thorny ہے- سکول میں اونچی ڈھلوان پر سائنس روم کے ساتھ کیکر کا جنگل تھا- ہمارے زمانے میں ڈی سی سکول میں بنچ تو نہیں تھے، البتہ درختوں اور پھولوں کی بھرمار تھی اور سامنے ٹی آئی ہائی سکول میں بنچ ہی بنچ تھے اور سائنس روم کے ساتھ اکلوتا ٹالی کا درخت تھا-
ہمارے زمانے کی نوجوان نسل انہیں کیکر اور ٹالی کے درختوں کی نیچے بیٹھ کر علم حاصل کرتی-
وصبہ چونڈہ کے اچھی عادات، اخلاق، اور جزبے سے بھرپور آج کے ” مثالی نوجوان” ہم سب کے لئے مشعل راہ ہیں- ان بچوں کو اس راہ پر ڈالنے والے کے ساتھ اللہ تعالی راضی ھو- نیکی اور بھلائی کبھی ضائع نہیں جاتی-
بنا بنایا فار میٹ فارم ہے، صوبائی حکومت اس قصبے کو ” ماڈل قصبہ” ڈکلیئر کر کے باقی صوبے کے نوجوانوں کو community work کی طرف راغب کر سکتی ہے- ترقی اور بہتری کی طرف جانے کا راستہ مل جائے تو منزل آسان ہو جاتی ہے- ان بچوں نے وہ راستہ ڈھونڈ نکالا ہے- ملکی ترقی کے لئے انتظامیہ اور کمیونٹی کا یہ ماڈل شاید پاکستان کی تقدیر بدل سکتا ہے- قوموں کی تقدیر بدلنے کے لئے صرف ایک آئیڈیا درکار ہوتا ہے-
بات ماضی کی چل رہی تھی – برگد اور پیپل کے درخت قصبے کی مشرقی اور شمالی سمت میں کثرت سے تھے- سائیں پورن کے ڈیرے پر پیپل اور برگد کی چھاؤں صرف سردائی کے لئے مخصوص تھی- آگے والے برگد درختوں کی چھاؤں البتہ تاش اور حقّے کے کش کو سکون بخشتی تھی- قصبے کے باہر چاروں اطراف سڑکوں کے کنارے ٹالی اور کیکر تھا- بلکہ کیکر کے جنگلات کثرت سے تھے-
چونڈہ کے نوجوانوں نے قصبے کو سنبھال رکھا ہے لیکن انتظامی معاملات جیسا کہ سیورج سسٹم ( انعکاس) کے لئے حکومتی سرپرستی کی قصبے کو اشد ضرورت ہے- کھیتوں میں تو ہریالی آج بھی ہے لیکن درختوں کی چھاؤں کم ہوتی جا رہی ہے- شاباش ” نوجوانان چونڈہ”، اچھا اور فلاحی کام کرنے کے لئے- اچھائی والا جھنڈا کبھی نہیں جھکتا-