
اپنی زندگی کے چھوٹے بڑے تمام فیصلے ہم خود کرتے ہیں- صرف تبدیلی ہمیں اوپر سے چاھیے-اپنا کاروبار، اپنے گھر، اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت ان کی شادیوں کے فیصلے ہم خود لیتے ہیں- جب الیکشن میں ووٹ ڈالنا ھو تو برادری سے مشورہ ضروری ھے- برادریوں کے فیصلوں کا نتیجہ آپ کے سامنے ھے-
ہم جس دور میں زندہ ہیں یہ ذھانت اور کامن سینس کا دور ہے- میٹرک میں دو دو بار فیل ھونے والے بچے فیس بک اور انسٹا پر وی لاگ کر کے پیسے کمانے کے طریقے بتا رھے ہیں-
ہماری ایمانداری اور غیر جانبداری کی حد یہ ھے کہ ہم پورے زمانے سے خوامخواہ بھڑ جائیں گے لیکن جو ہمیں تنخواہ دیتا ہے اس کی ہر بات بغیر کسی چوں چراں کے مان لیں گے-
خاوند بھلے نوبل پرائز جیت کے آیا ھو، اس کی نہیں سننی- کسی برانڈڈ شاپ کا میٹرک فیل سیلز مین اگر یہ کہ دے کہ باجی یہ پرنٹ مارکیٹ میں آج ہی آیا ھے تو فورا اس کی بات پر یقین کر کے سوٹ خرید لیں گی- گھر کے سارے فیصلے دھرنا مار کے منوا لیں گی لیکن شام کو کھانے میں کیا پکانا ھے یہ فیصلہ خاوند سے ہی کروانا ھے-
مرد بھی دل کے بہت نرم واقع ہوئے ہیں – چار گھنٹے گالف کھیل کر آتے ہی ، بیوی کا ایک فقرہ پورا ہونے سے پہلے ہی، ان کو ضروری کام یاد آ جاتا ہے -اپنی بیوی کے علاوہ دنیا کی کسی بھی عورت کی مدد کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رھتے ہیں- دفتر کی کسی بھی رنگ و نسل کی ساتھی ملازم خاتون گھر کی سگھڑ اور سمجھدار خوبصورت بیوی کے مقابلے میں کہیں زیادہ پرکشش لگتی ھے-
نوجوان نسل ہر کام میں آزادی چاہتی ھے سوائے پیسے کمانے کے- بیرون ملک بھاگنے کی تڑپ اعلی تعلیم اور روزگار کے لئے نہیں وہاں کی پرکشش اور رنگین زندگی کے لئے ھے-