
قرضوں کی واپسی، آئی پی پیز، کرپشن، ناقص منصوبہ بندی، غلط ترجیحات، سیاسی تنگ نظری، فوجی مداخلت، خارجہ پالیسی، جیو پالیٹیکس، پنشن بل، کم اجرت، کم تنخواہ؟
کوئی بھی تحقیق ایک نقطے پر ٹکی ھوتی ھے کہ سوال کیا ہے- غیر منطقی سوال سے تحقیق جنم لے ہی نہیں سکتی- کوئی بھی سوال وسیع مطالعے اور مشاھدے کی پیداوار ہوتا ہے- جسے لٹریچر ریویو کہتے ہیں – یعنی آپ نے اس موضوع پر اتنا پڑھا ھے ، اتنا پڑھا ھے کہ آپ کو لگتا ھے کہ اس سوال کا جواب مل جائے تو اس مسئلے پر معاملات بہتر ہو سکتے ہیں- اگر سوال مل جائے تو جواب ڈھونڈنا بہت آسان ہے- یہی سب کچھ پی ایچ ڈی کے تھیسیس کی بناد بنتی ھے اور اس سوال کو حل کرتے کرتے پھر سالہا سال لگ جاتے ہیں-
ہمارے مسائل تکنیکی نہیں بلکہ معاشرتی پیچیدگیوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی برائیوں کی پیداوار ہیں- جبکہ وی لاگ اور پاڈ کاسٹ پر دھڑا دھڑ سوال اور جواب دیئے جا رھے ہیں- سوال اتنے کھوکھلے ہیں کہ جواب خود ہی ہنس رھے ہیں- یہ سوال ایک دوسرے سے جڑے ھوئے ہیں- یہ کسی ایک فرد، کوئی ایک فیصلہ یا کسی ایک غلطی کا نتیجہ نہیں-
انسانی دماغ اتنی گہرائی میں جا تا نہیں لہذا یہی سوال و جواب انٹر نیٹ کی زینت بنے رھتے ہیں اور دماغ میں اندھیرے کو جلا بخشتے ہیں –
معاشرہ ، مجموعی سوچ سے بنتا ہے- معاشرہ echo chamber کی طرح ہوتا ہے- یہی وجہ ھے کہ ہماری اپنی ہی آوازوں کی گونج ہمیں ہر طرف سنائی دے رہی ھے-
انٹر نیٹ اور موبائل انفرادی ایکو چیمبر ہیں- یہ مہمل سوال ہیں جن کا منطق سے کوئی تعلق نہیں- انٹر نیٹ شعوری سے زیادہ ٹیکنیکل ھے- گروک، چیٹ جی پی ٹی ، ڈیپ سیک اب ایکو چیمبر میں کھیلتے ہیں پلک جھپکنے میں کسی بھی سوال کا جواب حاظر کر دیتے ہیں- یہ ایپس اگر صیح مقصد کے لئے استعمال نہ کی جائیں تو یہ الجھے ہوئے معاملات کو سنگین بنانے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہیں-
مجموعی سوچ ، کسی بھی انفرادی آواز کو اپنے اندر ضم کر لیتی ھے- بڑآ کلچر ، چھوٹی چھوٹی انفرادی عادات کو نگلتا جاتا ھے- یہ اژدھا ھے-
لہذا انفرادی سوچ کو انٹر نیٹ سے بچانے کی ضرورت ھے اور مجموعی سوچ میں آہستہ آہستہ بہتری کی کوشش کی ضرورت ھے-
ھمیں اپنے مسائل کی وجہ جاننے گہرائی تک جانے کے ضرورت ھے- سارے ماھریں کہیں سر جوڑ کر بیٹھیں گے تو سرا پکڑا جائے- یہ interdisciplinary مسئلہ ھے-