
زندگیوں میں ناقص منصوبہ بندی اور غیر معیاری نتائج کی وجوھات بہت مضحکہ خیز ہیں- انسانی دماغ کا ایک حصہ آٹو پر لگا ھے- یہ 95% فوری اور بغیر سوچے سمجھے پرانی روایات اور مشاھدے سے چیزیں نپٹاتا جاتا ھے- یہ منطق یا دلیل کے قریب بھی نہیں جاتا- کیونکہ جب مجھے چوٹ لگی تھی تو میری دادی نے مجھے دودھ میں ہلدی ڈال کر دی تھی ،تو اب بھی وہی نسخہ چلے گا- دماغ کا دوسرا حصہ جو صرف پانچ فیصد کام کرتا ہے اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتا ھے وہ کم ہی استعمال ہوتا ہے-
اگر خریداری کرتے ہوتے ہمیں پانچ ھزار والی چیز پہلے دکھا دی جائے اور دوھزار والی بعد میں تو ہم دو ھزار والی چیز سستی سمجھ کر خرید لییں گے- پہلی انفارمیشین ہمارے دماغ میں چپک جاتی ھے- یو نیورسٹیوں اور سوشل میڈیا پر شادی کے غلط فیصلوں کی یہ ایک بڑی وجہ ھے-
اگر جیب سے پانچ ھزار چوری ھو جائے اور دس ھزار کا کہیں سے فائدہ ہو جائے تو چوری ھو جانے والے پیسے کا دکھ بہت زیادہ ہوتا ھے-
جہاز کے حادثے کا سن کر ہم سڑک پر سفر کرنا بھی خطرناک سمجھتے ہیں –
ہم صرف اپنے خیالات سے مطابقت رکھنے والے ڈیٹا، انفارمیشین کو سمجھتے ہیں اسی لئے نتائج مکمل نہیں ملتے- دنیا کی ساری تحقیق اسی طرز پر چل رھی ھے ، اوراسی لئے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو رھا-
ہم منصوبہ بندی کرتے ھوئے کام مکمل ھونے کے وقت کا اندازہ بہت کم لگاتے ہیں جبکہ حقیقت میں اس میں کافی وقت درکار ھوتا ھے-جب کوئی واقع ھو جائے تو لگتا ھے ہمیں تو یہ پہلے سے پتا تھا، کہ کیا ھونے والا ہے-ہماری رائے کا دارومدار اس بات پر ھوتا ھے کہ ہمیں چیز کیسے پیش کی جاتی ھے- چھری کانٹے کے ساتھ پلاؤ بہت سلیقے والا اور ڈھابے سے کھائیں تو کمتر درجے والا لگتا ھے-ہم تکلیف دہ رشتے ، نقصان دہ چیزوں کو سنبھالے رکھتے ہیں کہ اب کیا تبدیل کرنا-ہم اپنے آج کے آرام اور مزے کو کل پر قربان نہیں کرتے- اسے ھڈ حرامی کہتے ہیں اور پھر بااعتماد بھی ھوتے ہیں کہ امتحان کی تیاری آخری رات ھو ہی جائے گی-