
رائے کی کثرت ہے مگر صائب رائے کی شدید قلّت– انفارمیشین کا طوفان ،انسانی ذہن میں اعتدال کو نگلچکا ھے–
اور اوپر سے مسئلہ یہ نہیں کہ ہر بندے کی اپنی رائے ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی رائے کو آپ پرمسلط کرنا چاہتا ہے –
دنیا میں اس وقت تقریبا 9 ارب موبائل ہیں اور ہر موبائل دوسرے موبائل سے نکلنے والے اپنے ذہن سےہم آہنگ گیان کو جپھہ مار کے بیٹھا ہے– سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ھے کہ ہر بندہ دن میں 144 بار موبائلچیک کرتا ھے یا اپنے موبائل کی طرف متوجہ ہوتا ھے یا رائے کا اظہار کرتا ھے– یعنی ھر دس منٹ بعدہمیں ” وٹامن موبائل ” کی ضرورت ہوتی ھے– یہ تقریبا آکسیجن کی مقدار کے برابر بنتی ھے– یہ پانی کےاستعمال سے کم از کم 500% زیادہ ھے– اس کثرت اور سرعت سے انسانی کے دماغی خلیے تبدیل ہو رھےہیں کہ ان کے رُخ کا اندازہ نہیں ہو پا رھا کہ تبدیلی اوپر، نیچے، دائیں ، بائیں کس طرف ہو رخی ھے– یہواقعی خطرناک صورتحال ہے–
باشعور لوگ ، اگر کچھ بچ گئے ہیں تو ان کو اس صورتحال میں اپنا کردار ادا کرنا چاھیے– تقریبا ہر تیسرا بندہذہنی اضطراب کا شکار ہے اور ذہنی مریض بننے کے قریب ھے–
صیح اور غلط انفارمیشین کو سمجھنے کے لئے پانی کی مثال لیتے ہیں–
صاف پانی میں اگر سیورج کا پانی شامل ہو جائے تو پانی قابل استعمال نہیں رہتا– انفارمیشین کی بھی یہیصورتحال ھے– صیح انفارمیشین کے اندر اگر غلط انفارمیشن مل جائے گی تو مصنوعی ذھانت جو پراڈکٹبنائے گی وہ faulty product ھو گی – جو کہ تباہی کا باعث بھی بن سکتی ھے–