
ہم جتنا کسی واقعے کو زیادہ سنتے ہیں اتنا ہی اس پر یقین کرتے چلے جاتے ہیں – اس فلسفے کو تصوراتی سچ یا سچائی کا سرا ب کہتے ہیں-افواہ بار بار سننے سے سچ لگنا شروع ہو جاتی ھے-
ٹی وی یا یو ٹیوب پر اشتہارات کے لئے یہی کلیہ استعمال ہوتا ہے- اشتہار کو اتنا دکھاؤ کہ وہ پک جائے-
نفسیات کے مطابق، ھمارے دماغ کو جو چیز جانی پہچانی نظر آتی ہے، اس کو ہی وہ سچ مان لیتا ہے- ایسا اس لئے ھوتا ھے کہ انسانی دماغ کی ساخت اسطرح کی گئی ھے کہ یہ انرجی بچاتا ہے- ہر چیز پر تحقیق کی بجائے یہ چھوٹا راستہ اپناتا ہے جانبدارانہ خیالات کو فورا تسلیم کر لیتا ھے-
تصوراتی سچ بھی اسی نفسیات کا حصہ ھے
نفسیات میں cognitive bias یہی ہے- ہمارے ذہن میں جو چیز پختہ ہو جاتی ہے ہم پھر اسی کا سرا پکڑ کر آگے بڑھتے رھتے ہیں- اور اس کی پھر پرورش کرتے ہیں-اس کو وہی لوری سناتے ہیں جسے سُن کو وہ سو جاتا ہے اور پھر عمر بھر سویا ہی رھتا ھے
جو لوگ cognitive bias کے شکنجے کو توڑ دیتے ہیں وہی دراصل آزاد ہیں -صرف ان کی سوچ ہی حقیقت کو پرکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے-