
انسان کی بنائی ایجادات میں بستر اور ھڈ حرامی کے جوڑ کا کوئی نعم البدل نہیں- انگریز احترامً اسے ‘laziness’ کہتا ہے- ھڈ حرامی کے بعد "آج کا کام کل پر ڈالنا” کی عادت کا اہم مقام ہے- اسے procarstination جیسے خوبصورت نام سے یاد کیا جاتا ہے- کچھ دانشوروں کا خیال ھے کہ آج کا کام کل پر نہیں، پرسوں پر ڈال دینا چاہیے- کوشش کریں کہ جو کم کل پر ڈالنا ھے وہ جمعہ والے دن کریں اس طرح کام کو تھوڑا اور آرام مل جائے گا-
مجھے یاد ہے میں سات یا آٹھ سال کا ہونگا جب امّی نے پہلی دفع مجھے محلّے کی دوکان جو بالکل گھر کے ساتھ تھی وہاں سے دہی لانے کا بولا اور اس دن ہمارے گھر دہی نہیں آیا- میں نے دہی لانے کی بجائے ماں کو مشورہ دیا کہ چھوٹے بھائی سے منگوا لیں- غالبا اس نے بھی کوئی تاریخ دی تھی- ماں نے پیار بھرا غصے والا منہ بنایا اور واری صدقے سے کام چلا لیا-ماؤں کی اسی خوبی کی وجہ سے ان کے پاؤں کے نیچے جنت ہے-
انسانی جسم میں سب سے زیادہ شوگر دماغ استعمال کرتا ہے، خاص طور پر جب ٹیکسٹ بک پڑھنی پڑھ جائے تو- بہت سے طلباء اور طالبات کو صرف امتحان کی آخری رات شوگر درکار ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹیاں اور کالجز دھڑا دھڑ ھڈ حرام پیدا کر رھے رھے ہیں- آن لائن ڈلیوری اور فری لانسنگ نے ھڈ حراموں کی دنیا جنت بنا دی ہے-
مغرب میں انہوں نے ھڈ حرامی کا توڑ یہ نکالا کہ کتابوں کو ثانوی حیثیت دے کر سوچنے سمجھنے اور عملی کام کو فوقیت دینا شروع کر دی- بالغ ہوتے ہی بچوں کو کام کرنے کے لئے مارکیٹ میں پھینک دیتے ہیں- ہمارے ہاں بالغ ہوتے ہی ھڈحرام کو موٹر سائیکل اور ھیلمٹ لے دیتے ہیں کہ ابھی میرے بچے کی عمر ہی کیا ہے-
ستر اور اسی کی دھائی میں سعودی عرب اور دوبئی نے ہمارے ہاں ھڈ حرامی کو بہت تقویت بخشی- ایک گھر سے ایک فرد ، والد یا بڑا لڑکا باھر مزدوری کرنے چلا جاتا اور پیچھے پانچ، چھ ھڈ حرام پیسے خرچ کرنے کی ترکیبیں سوچتے رہتے-
نسل در نسل چلے آ رھے امیر گھرانوں میں ھڈ حرامی رگوں میں دوڑتی ہے- ان گھرانوں میں نوکری کرنا یا محنت مزدوری ،بے عزتی سمجھا جاتا ہے-
ھڈ حرام ذمہ داری کو ایک دوسرے پر پھینکتے ہیں – اگر کوئی چارہ نہ رہے تو پھر وہ کام کانفرنسوں، evaluations, assessments , ڈرافٹنگ کی نذر ہو جاتا ہے اور ریاست وہاں پہنچ جاتی ہے جہاں ہم آج کھڑے ہیں –