
حقیقت میں ہم جھوٹ، بناوٹ اور فرضی دنیا کے جھولے جھول رھے ہیں- ایک ایسی دنیا جو فرضی قصّے کہانیوں کو سن سن کر ذہن میں تخلیق ہو جائے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو اسے abstract reality کہتے ہیں-
موبائل،کیمرہ اور انٹر نیٹ نے ہماری سوچ کو دبوچ رکھا ہے – ہر بندہ موبائل کی شکل میں ایک فرضی دنیا جیب میں لئے گھوم رھا ہے- کوئی غلط فہمی میں نہ رھے کہ اس دنیا کو کوئی گلوبل آرڈر چلا رھا ہے- یہ دنیااس وقت موبائل کے کیمرے اور سکرین پر ٹکی ھے–اگر موبائل میں کیمرا اور سکرین غائب کر دیں تو آٹھارب لوگ بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے- مدّت ہوئی انہوں نے اصلی دنیا دیکھی ہی نہیں – کسی شخص کی دنیا اندھیر کرنی ہو تو اس کے موبائل کی بیٹری نکال دیں ، وہ پاگلوں کی طرح بار بار موبائل کو دیکھے گا اور پانی سے تازہ تازہ باہر نکلی مچھلی کی طرح تڑپے گا-
ہمارے ذہنوں کے ساتھ ساتھ اس دنیا کی معیشیت بھی موبائل اور اس کی سکرین سے جڑ چکی ھے- ایک ہی گھر میں ، ہم علیحدہ علیحدہ اپنی اپنی فرضی دنیا میں زندہ ہیں – ملکی صورتحال کا آپ خود اندازہ لگا لیں-
اب بھارت کو ہی دیکھ لیں- ڈیڑھ ارب کی آبادی کی بالی ووڈ کی بنائی فرضی دنیا کو رافیل طیّاروں کی تباھی نے کہاں لا کھڑا کیا ہے- صدر ٹرمپ علیحدہ بھاؤ تاؤ کر رھے ہیں-
آج کل کے دور میں حقیقت ڈھونڈنا بالکل تیل ڈھونڈنے کی طرح ہے- آپ ایک جگہ ڈھونڈنا شروع کرتے ہیں وہ دور پرتگال میں جا نکلتی ہے- حقیقت کہاں چھپی ہے، اس کا ادراک بہت مشکل ہے- ٹیوے ٹوٹکے لگانے کے لئے سوشل سائنس کے ماہرین نے کچھ نسخے ضرور تجویز کر رکھے ہیں لیکن وہ ناکافی ہیں-ہمارے روّیے بھی ان فرضی خاکوں کا ردعمل ہیں جو ہم کیمرے کی سکرین پر دن میں دس سے بارہ گھنٹے مسلسل دیکھتے ہیں- جس طرح بندر کیلا دیکھ کر آپے سے باھر ہو جاتا ہے، اجکل بندے سوشل میڈیا پر پوسٹیں دیکھ کر وہی رد عمل دے رھے ہیں- ہر طرف چڑ چڑا پن ھے-
یہ مکمل طور پر ڈس انفارمیشین اکانومی کی دنیا ھے-ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی ساری سائنس ہماری توجہ حاصل کرنے کے درپے ہے اور ابھی مصنوعی ذھانت نے قدم جمانے ہیں- جنہوں نے مصنوعی ذھانت اپنے ہاتھوں سے بنائی ھے، وہی کہ رھے ہیں کہ یہ بہت خطرناک ھے- یہ آخری حد ھے ترقی کی ،کہ جہاز اڑا کے کہ رھے ہیں، ہمیں لینڈنگ تو آتی ہی نہیں-
کن الفاظ کو کیسے اور کہاں استعمال کر کے آپ کی توجہ مزید آگے کدھر موڑنی ہے ، اس کی سوچ بچار کے لئے اربوں ڈالر کی انڈسٹری مسلسل حرکت میں ھے- کوئی بھی پراڈکٹ اس وقت تک بیکار ھے جب تک وہ ہماری توجہ نہ حاصل کر لے- یہ ہمارے لئے باعث صد افتخار ہے کہ پوری دنیا ہماری توجہ حاصل کرنے کے درپے ہے-سوشل میڈیا توجہ حاصل کر کے آپ کو بینک کے حوالے کر دیتا ھے- بینک نے ہر اس بندے کو کریڈٹ کارڈ ایشو کر رکھا ہے جو خود بیوقوف ہے اور بیوی شاپنگ کی شوقین- قسطوں پر پلاٹوں کی فائلیں لے کر دس دس سال سے ھاؤسنگ سوسائیٹیوں کے بننے کا انتظار کر رھے ہیں-معاشی حالات سائیکل والے ہیں اور قرضے لے کر گاڑیاں چلا رھے ہیں-
حقیقت میں ہم جھوٹ، بناوٹ اور فرضی دنیا کے جھولے جھول رھے ہیں-