
جمہوری معاشروں میں شہریوں کو مالی نقصان کی اتنی پرواہ نہیں ہوتی جتنی آزادی رائے عزیز– دوسریطرف سیاسی طریقہ کار پر اختلاف ہو سکتا ھے لیکن چیک اینڈ بیلنس اور ریاست کا تحفظ بھی جمہوریت کیذمہ داری ہے– میڈیا سے ھزاروں اختلاف سہی لیکن واچ ڈاگ میڈیا ہی ھے–
ووٹ اور ادھار کوئی بھی خوشی سے نہیں مانگتا- دونوں ضرورتمند ہوتے ہیں -غریب کو ادھار پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے چاہئیے- امیدوار کو طاقت کا ٹیکہ چاہیے-
ووٹروں کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوتی ہیں جو وہ الیکشن کے لئے سنبھال کے رکھ چھوڑتے ہیں- ہمارے ہاں رُسنے(ناراض ہونے) کا بہت رواج ہے- خاص طور پر جوائی ( داماد) بات بات پر رُستے ہیں- وجہ کوئی بھی نہیں بس خواہ مخواہ نخرے – شادی بیاہ کو رُسنے کا بہترین موقع سمجھا جاتا ہے- اکثر رشتہ دار دور پار سے صرف رُسنے کے لئے آتے ہیں- پہنچتے ہی ناراض ہو جاتے ہیں- پھر پورا خاندان اُن کو مننانے پر لگ جاتا ہے اور شادی ختم ہونے تک یہ مداری جاری رہتی ھے- رسنے والے آؤ بھگت کروا کے ولیمے کے اگلے دن روانہ ہو جاتے ہیں – اور پھر یہ اکٹھ کسی دوسری شادی پر لگتا ھے اور وہی سین دوبارہ فلمایا جاتا ہے-
الیکشن قریب آتے ہی ووٹر برادریوں کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں – سنگل ووٹ کی اتنی قدر نہیں ہوتی جبکہ گروھی سیاست کا وزن ہوتا ھے- یہ چھوٹے چھوٹے گروہ امیدوار کو تگنی کا ناچ نچاتے ہیں- ہمارے امیدوار بھی پھر لوھے کا جانگیہ پہن کے نکل پڑتے ہیں- اگر ووٹر ، امیدوار کو جانتا ھے تو امیدوار کو بھی ووٹر کے چسکے کا پتا ہوتا ھے-
برادری روز چسکا لینے کے لئے ہچکولے کھاتی ہے، کبھی کیچلی مار لیتی ہے- امیدوار تک بھی صورت حال لمحہ بہ لمحہ پہنچ رہی ہوتی ہے- امیدوار بھی پھر نئے نئے کھلاڑی میدان میں اتارتا ہے اور چائے کا مینیو اور ضرورت پڑے تو کھانے کا اہتمام بھی کر تا ھے- یہ کھیل تماشا آخری دن تک جاری رھتا ہے- چھوٹی برادری کُھل کر سامنے نہہیں آتی اور وہی عموما فیصل کُن ثابت ہوتی ھے-
امیدوار سے برادریاں کسوٹی بھی کھیلیتی ہیں-
امیدوار اپنی کوتاہیوں کا جواز تو پیش کر سکتا ہے لیکن آئی ایم ایف کے جبر اور ظلم کی صفائی کہاں سے دے- بجلی کے بل کیوں جمپ ماتے ہیں، اس بیچارے صوبائی اسمبلی کے میدوار کو کیا پتا جس نے پارٹی فنڈ میں بھاری چندہ دے کے ٹکٹ لیا ہے-
یہ پارٹی چندہ دوسری چندا سے تھوڑا مختلف ہوتا ہے- یہ چندہ پارٹی کے مختلف امور چلانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے-ملک کے جتنے بڑے بڑے مافیاز ہیں وہ بھی الیکشن کے موقع پر پارٹیوں کو سلامی پیش کرتے ہیں پارٹی جب حکومت میں آ جاتی ہے تو مافیاز کو کندھا دیتی ہے- اور مافیا پھر عوام کو قبرستان تک چھوڑ کے آتے ہیں – جمہوریت کا یہی حسن اسے منفرد بناتا ھے- انسان کو نقصان کی اتنی پرواہ نہیں جتنی آزادی پسند ھے- پاکستانی عوام کا بھی شاید یہی اضطراب ہے
برادریاں ووٹ دینے کا فیصلہ اکٹھے کرتی ہیں لیکن بجلی کے اور گیس کے بل اپنے اپنے ادا کرتی ہیں- الیکشن کے فورا بعد برادری ایسے بکھرتی ہے جیسے ہاتھ سے پھسلا ہوا کانچ کا برتن ٹوٹ کے بکھرتا ہے-جس دن ووٹر کو یہ سمجھ آ گئی کہ ووٹ برادری کا نہیں میرا اپنا فیصلہ ہے، پاکستان بدل جائے گا-
الیکشن میں ووٹ انفرادی فیصلہ ہوتا ہے اگر مجموعی فیصلہ ہوتا تو پوری برادری کا ایک ووٹ بنتا- اثرو رسوخ سے ووٹ ڈلوانا ہی دراصل جمہوریت کی بنیادی غلطی –
جمہوریت میں سیاسی طریقہ کار پر اختلاف ہو سکتا ھے لیکن یہ واحد نظام ہے جو شہریوں کو آزادی کا تصور دیتا ھے- میڈیا سے ھزاروں اختلاف سہی لیکن واچ ڈاگ میڈیا ہی ھے