
کوئی بھی تحریر صرف مصنف کی قابلیت کا اظہار نہیں ہوتی بلکہ وہ قاری کی شخصیّت کو بھی پرکھتی ہے – بہت سے قائرین صرف عنوان یا لکھنے والے کا نام دیکھ کر ہی اپنا ذہن بنا لیتے ہیں کہ اس تحریر کو پڑھنا ہے یا چھوڑ کر آگے بڑھ جانا ھے- جہاں تحریر آپ کے دل سے دور ہٹنا شروع ہو جائے اس حصے کو highlight کرنا شروع کر دیں – یہی وہ سطور ہیں جنہیں آپ کو بار بار پڑھنا ہے اور کھوج لگانا ہے کہ یہ آپ کو کیوں پسند نہیں؟ جہاں سے آپ کو تحریر ناپسند لگنا شروع ہوئی وہی آپ کے علم اور بصیرت کی آخری حد ہے- میری سوچ کی حد بہت ہی محدود ھے- میں تو اکثر نام دیکھ کر ہی آگے بڑھ جاتا ھوں-یعنی میرا علم stagnant ہے- آپ کی قوّت برداشت آپ کی پسند کی آخری حد ہوتی ہے- زندگی کا اصل حسن دیکھنے کے لئے ان حدوں کو پار کرنا ضروری-
اگر آپ کو کسی لکھاری کی علمی استطاعت کا پتا لگانا ہے تو اس کی پانچ دس مختلف تحریروں یا مضامیں میں diversity ڈھونڈیں – جتنی diversity بڑھتی جائے گی اتنی ہی اس کے علم کی کشادگی ہے- اگر diversity کم ہے یا بالکل نہیں ہے تو علم گدلے تالاب کے مانند ہے-
یہی دونوں کلیے آپ ریاستوں ، حکومتوں ، سیاسی نظریات اور قیادت کی پالیسیوں کو پرکھنے کے لئے لگا سکتے ہیں – ہمارے علم کی کشادگی اور پالیسیز کی diversity ہمارے مسائل کا حل ہے- اگر ایک ہی pattern چلتا آ رھا ہے تو وہ بندہ، وہ ریاست وہ گروہ ابھی بیسویں صدی میں اٹکے ہوئے ھے- نئے زمانے میں inclusive سوچ، تحقیقاتی دائرہ کار کی ضرورت ھے-