
کھوج
انسان کا عمل عمومی طور پر ارگرد کے ماحول کا ردّعمل ہوتا ہے- ہم ہر طرف سے مشینیںوں میں گرے ہوئے ہیں – مشینیں ہر وقت پینترا بدل بدل کر وار کرتی ہیں لہذا ہمارا ردعمل بھی ہر لمحہ تبدیل ہو رھا ہے-
مشینوں کا استعمال بھی انسانوں کے ہاتھ میں ہے اور اس کا ردعمل بھی انسان ہی دے رھا ھے یعنی دوسرے آپ کو ایک خاص عمل کے لئے اکساتے ہیں- اور اسی طرح ہم بھی دوسروں کو ایک خاص ردعمل کے لئے اکساتے ہیں – نہ ہنسی آپ کی اپنی ھے نہ دکھ، نہ سیاسی سمجھ بوجھ آپ کے اپنے ذہن کی پیداوار ھے نہ کوئی نظریہ اپنا ھے- آپ کی سوچ مکمل طور پر مستعار ھے-
حتی کہ برانڈ کی پسند اور رنگوں کا انتخاب بھی ڈیجیٹل مارکیٹ نے آپ کی سوچ کو دیا ھے-
اس دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لئے، موبائل سے detach ھو کر ،بہت گہرائی میں اترنا پڑے گا – اور اتنی گہرائی تک اےرنے کے لئے بے انتئاء علم چاہیے- اونچا اوپر چڑھنے اور نیچے گہرائی میں اترنے میں بہت فرق ھے-اونچائی پر ڈھونڈنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا، صرف نظارہ کیا جا سکتا ھے- اونچائی مشقت ہے اور گہرائی مشقت کے ساتھ کھوج بھی – جب کھوج لگانے کے لئے گہرائی میں اترتے ہیں تو روشنی کی ضرورت پڑتی ھے- قرآن پاک وہ واحد روشنی ھے جسے ساتھ لیکر کسی بھی علم کی کھوج کی جا سکتی اور اس کی سچائی کی پرکھ بھی-علم کی پہلی عطا عاجزی ہے، دوسری روشنی، پھر انصاف، ہمدردی، انس، پیار، رحم-
علم کی ھزاروں اقسام ہیں لیکن مقصد ایک ہی ھے- سچ یا سچ کے قریب پہنچنے کی کوشش- سائنس existing phenomenon کو ڈھونڈتی ھے- سوشل سائنس، انسان کے phenomenons کے ساتھ تعلق, انسان کے معاشرے سے اور انسان کے انسان سے تعلق کا کھوج بھی لگاتی ھے-