
مشہور ماہر معاشیات ابھیجیت بنرجی اور ایستھر ڈفلو نے غریبوں کی زندگیوں کی تمام پیچیدگیوں کے بارےمیں دو دھائیوں تک تحقیق کے بعد کتاب لکھی
( poor economics)
ان کا ماننا ہے غربت کے بارے میں ناکافی علم نے غربت کے خلاف جنگ کو بہت نقصان پہنچایا ہے– انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہےکہ غریبوں کے لئے ہم ھمدردی اور رحم کے جزبات تو رکھتے ہیں لیکن ان کیزندگیوں کو سمجھنے کے لئے ہمارے پاس نہ وقت ہے نہ ہماری ترجیح – انہیں ہم اتنا حقیر سمجھتے ہیں کہ انکو سمجھنا ہماری ترجیحات میں ہی نہیں ہے–ہمارا خیال ہے ان کے معاشی وجود کے بارے میں کوئیدلچسپ بات نہیں ہے۔ ہر وقت مہنگائی مہنگائی کرتے ہیں لیکن ہمارے پاس زیرو علم ہے کہ غریبآدمی زندگی گزارتا کیسے–
بدقسمتی سے، یہ غلط فہمی عالمی غربت کے خلاف جنگ کو بری طرح نقصان پہنچاتی ہے–
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ضرورت اس بات کی ہےکہ غریبوں کو کارٹون کرداروں تک محدود کرنا بند کیا جائےاور ان کی زندگی کو ان کی تمام تر پیچیدگیوں کوسمجھنے کے لیے وقت نکالا جائے۔ غربت ایک بہت بڑامعاشرتی مسئلہ ہے جو سینکڑوں دوسرے مسائل کو جنم دیتا ہے– عالمی بینک کی 2022 کی رپورٹ کےمطابق دنیا بھر میں 682 ملین افراد انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔پاکستان میں غربت کی بہت تیزیسے اوپر جا رہی ہے–
بینرجی اپنی کتاب ” poor economics” میں لکھتے ہیں کہ غریب کس طرح کھانا کھاتے ہیں یہ دلچسپ امرہے۔ غریبوں کی زندگیوں پر مرتب کردہ 18 ممالک کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے، انہوں نےدیکھا کہ خوراک دیہی علاقوں میں انتہائی غریب رہنے والوں کی کھپت کا 36-70٪ جبکہ شہروں میں یہ شرح 53-74٪ ہے۔ غریب مائیکرو نیوٹرینٹس کے مقابلے میں "چسکولے پن ” پر خرچ کرتے ہیں ۔
ترقی پذیر ممالک میں غذائیت ایک مسئلہ ہے۔ وہ چیزیں جو زندگی کو کم بورنگ بناتی ہیں غریبوں کے لیےترجیح ہوتی ہیں – موبائل، ٹی وی سیٹ، کھانے کے لیے کوئی خاص مزیدار ڈش ۔ شمالی ہندوستان کیریاست راجستھان کے ایک مقام پر، جہاں تقریباً کسی کے پاس ٹی وی نہیں تھا، انھوں نے دیکھا کہ انتہائیغریب لوگ اپنے بجٹ کا 14 فیصد تہواروں پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، نکاراگوا میں، جہاںدیہاتوں میں 56% غریب گھرانوں کے پاس ریڈیو تھا اور 21% کے پاس ٹی وی تھا، بہت کم گھرانوں کوتہواروں پر کچھ خرچ کرتے دیکھا–
یعنی اگر انٹرٹینمنٹ مہیا ھو جائے تو تہواروں پر خرچ نہیں کریں گے–
حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کو خوراک کی پالیسی پر مکمل طور پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے– کیونکہ بنیادی مسئلہ کیلوریز نہیں تھا، بلکہ دیگر غذائی اجزاء تھے۔
شاید صرف غریبوں کو زیادہ رقم فراہم کرنا ہی کافی نہیں ہے، اور بھی بہت کچھ کرنے اور سمجھانے کیضرورت ہے۔ جیسا کہ ہم نے ہندوستان میں دیکھا، جب ان کی آمدنی بڑھ جاتی ہے تو غریب زیادہ غذانہیں کھاتے۔ اور دوسری خواھشات اور غیر ضروری چیزیں خرید کر محرومیوں کو کم کرنے کی کوشش کریںگے–
غربت کو ختم کرنے کے لیے کوئی جادوئی گولیاں نہیں ہیں۔بہت سی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو ان کیزندگیوں کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہیں– یہ کتاب غربت کے خاتمے کے لئے مفید نسخہ ہے– بہت چھوٹیچھوٹی معلومات سے غریب کی زندگیوں کو آسان بنایا جا سکتا ہے– غربت کا شکار گھرانوں کو مدد کے ساتھساتھ خوراک اور صفائی کی ترجیحات بتائیں– پانی ابال کے پینے کی ترغیب دیں– کم چینی استعمال کرنے کاکہیں – بچے دو ہی اچھے– بچوں کی شادی تب تک نہ کریں جب تک بچہ بر سرروزگار نہ ہو جائے– بچوں کواگر تعلیم ممکن نہیں تو ہنر مند بنائیں تاکہ خاندان کا سہارا بنے– آجکل کمپوٹر ہر کوئی سیکھ سکتا ھے –
غربت کے خلاف لڑنے کے لئے ہمیں غریب کی زندگی کے بارے میں معلومات اور طرز زندگی کو سمجھناہو گا– لنگر کھول دینا نیکی ہے لیکن اس سے آگے کچھ کرنے کی ضرورت ہے–
پاکستان کی آبادی کا ساٹھ فیصد نوجوان ہیں ان میں زیادہ تعداد لیبر فورس ہے جو کہ ھماری رھی سہیمعیشیت کی ریڑھ کی ھڈی کی حیثیت رکھتا ہے– عمارتوں پر کام کرنے والے مزدور، مستری، بھٹہ مزدور،بازاروں میں بھاری کام کرنے والے، دفتروں میں کم اجرت والے، ڈرائیور، مالی، ویٹر ، گھروں میں کامکرنے والے، سبزیاں ، پھل، بیچنے والے ریڑھی بان، رکشہ ، ٹیکسیاں چلانے والے، یہ آہستہ کمزور اورلاغر ہوتے جا رھے ہیں– ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہے–مہنگائی ایک لاوا ھے جو سب کچھ بہا کر لےجائے گا –