
{"editType":"image_edit","data":{},"tiktok_developers_3p_anchor_params":"{"picture_template_id":"","capability_name":"retouch_edit_tool","source_type":"vicut","client_key":"aw889s25wozf8s7e"}","pictureId":"DE9E1A2E-580C-426A-A497-E4CE1272F74D","exportType":"image_export","source_type":"vicut"}
انسانوں کی کارکردگی ان کی سستی اور کاہلی کے باعث کم ہوتی رھتی ھے جسے بڑی خوبصورتی سے ” تجربہ کار” کے لفظ سے ڈھانپ دیا جاتا ھے- سستی اور کاھلی کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ ہر ادارے میں کام کرنے والے افراد اور استعمال میں آنے والی چیزوں کی قدر میں کمی آتی ھے- تجربہ انسان کو اداروں کے لئے فائدہ مند نہیں بلکہ چالا کی، کی وجہ سے نقصان دہ بناتا ھے-اگر مصنوعی ذھانت پیداوار میں ممد ثابت ہوتی ھے تو انسانی تجربے کو بھی مات دے دے گی- یعنی اداروں میں تجربہ کار سینئرز کی ضرورت نہیں رھے گی- data driven پروسیجرز اور automated monitoring بہت سے دوسرے کمزور پہلوؤں پر بھی قابو پا لے گی- سی سی ٹی وی کیمروں کی وجہ سے پہلے ہی جرائم میں خاطر خواہ کمی نظر آ رھی ھے-
اگر انسان کی خودغرضی، کاہلی، جسمانی کمزوری، لالچ اور گھریلو ذمہ داریوں کو ذہن میں رکھیں تو ہر فرد کی کارکردگی کم ازکم نصف سے زائد ادارے کے فائدلے کے لئے تو استعمال ہی نہیں ہوتی- اگر اس نقصان کو نئی مشین یا مصنوعی ذھانت پورا کر سکتی ہے تو ادارے کی ترقی کے امکانات بڑھ جائیں گے- لیکن اسطرح بے روزگاری بھی بڑھے گی- لیکن اگر یہ لوگ کام کرتے رھیں گے تو ترقی کا عمل رک جائے گا اور نقصان بھی ہوتا رھے گا-
اگر مصنوعی ذھانت ترقی کی اعلی منازل اتنی سرعت سے طے کرتی رھی تو ھاورڈ، آکسفورڈ، ایم آئی ٹی کیا کریں گی، سوائے اس کے کہ مزیدبہتر مصنوعی ذھانت پیدا کریں-
لہذا ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں اگلے دو تین برسوں میں مصنوعی ذھانت اور انسانی procrastination میں سخت مقابلے کی توقع ھے-