
جیسے وائرس mutate ھو کر خطرناک ہوتا جاتا ھے- بالکل اسی طرح ریاست کو لاحق فوری خطرے کا اُپائے نہ کریں تو ایک خطرہ بہت سے خطروں کو جنم دیتا ھے-خطروں سے آگاہی کے عمل کو securitization کہتے ہیں
ریاست کی بقا ترقی کے ساتھ ساتھ ، سیکورٹی سے بھی جڑی ھے-سیاست ریاست کے سر پر سایہ ہوتا ھے-جب ریاست کے تمام سیاسی کرتا دھرتا ایک صفحے پر نہ ھوں تو سب سے پہلے ملکی ترقی کا پہیہ جام ہوتا ھے، پھر ریاست کے سر پرخطرات منڈلانے لگتے ہیں- اشرافیہ کیونکہ اپنے معاملات میں مصروف ہوتی ھے تو عوام کو ان خطرات سے آگاہی نہیں ہو پاتی – پھر یہ خطرات بڑھتے بڑھتے ملکی تباھی پر منتج ھوتے ہیں – یہ میری رائے نہیں بلکہ موجودہ دور کی سب سے اہم Securitization تھیوری ھے- جس کا براہ راست تعلق ریاست کی بقا سے ھے- اور securitization کا اہم ترین جزو انفارمیشین ھے- اگر انفارمیشین گدلی ھے اور اسے شفاف بنانے کا اگر کوئی باقا عدہ منصوبہ نہیں ھے تو ریاست دشمن کے سامنے بغیر کسی ہتھیار کے پڑی ھے-
پاکستان میں سوشل میڈیا کے استعمال کی کہانی عالمی سطح پر انعام یافتہ کتاب ” قومیں کیوں فیل ہوتی ہیں ” کا نیا باب ہے- سوشل میڈیا کی شتر بے مہالی نے پاکستانی معاشرے کو جو گزند پہنچائی ہے ، اس کا خمیازہ قوم کئی نسلوں تک بھگتتی رھے گی-
خطرے کو کبھی transform نہ ہونے دیں ورنہ خطرہ ہوا کی طرح ہر طرف پھیل جائے گا- پچھلے بیس سالوں میں خطرہ روائتی جنگ سے غیر روائتی جنگ، پھر ھائبرڈ وارفیئر ،انفارمیشن وارفیئر کی شکل میں پھیلتا رہا ہے، جس کا سائیڈ ایفیکٹ سیاسی , معاشی اور معاشرتی افراتفری اور ابتری کی شکل میں نکلا اور اندرونی صورت حال بھی بگڑتی چلی گئی- دھشت گردی کی جنگ نے معاشرتی اور معاشی اور سیکورٹی کی صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیا-
خطرے کو فورا کچلیں اور دشمن کے وار کا جواب دینے کے لئے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہیں- جارحیت کے ہر خانے میں کھیلیں- اس سے قبل کہ دشمن خطرے کو transform کرے، آپ initiative اپنے ہاتھ میں لے لیں
پاکستان سیاسی ہلچل سے آہستہ آہستہ باہر نکلنا شروع ہوا ہے اور ساتھ ہی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے بھی آنا شروع ہو چکے ہیں- معیشیت ایک گورکھ دھندا ہے کیونکہ یہ حساب کتاب عالمی کھاتوں سے جڑا ہے اور ہمارا کھاتہ بہت بڑا ھے- تھوڑا وقت لگے گا لیکن یہ جنجھال ختم ہو گا-
آبادی کے بڑھنے سے وسائل میں کمی آئی ہے – روزگار ، خوراک، پینے کا صاف پانی، موسمی حالات ان سب میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہے جس سے انسانی زندگی میں تکالیف کا اضافہ ہوا ہے- کیونکہ طرز زندگی میں اسی تناسب سے تبدیلی نھیں آئیں جس تناسب سے ماحول تبدیل ہوا ، اس وجہ سے افراد الجھن کا شکار ہیں- اسی دوران ایک خاص گروہ نے انفارمیشن ڈومین میں توڑ پھوڑ کر کے قوم کی سوچ کو غلط رُخ پر ڈال دیا جس سے قوم کا مجموعی ردعمل جارحانہ ہوا- جب عوام اکجھتی ہے تو حکمران طبقہ زیر عتاب آتا ہے-
پاکستان کی سیاسی قیادت کی سوچ میں ہم آہنگی نظر آ رھی ہے
معاشرے کی تشکیل ایک وسیع ،طویل مدّتی اور مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے- قومیں دھائیوں نہیں، صدیوں کی تپسیا کے بعد بنتی اور سنورتی ہیں-تھوڑا تھوڑا کے مکمل ہوتاہے- معاشرہ کچھ بھی نہیں صرف "ہم” اور "آپ ” کا مجموعہ ہے- پارٹیاں، حکومت، ادارے ، صحافت، پولیس، فوج ، ڈاکٹر انجنئر یہ صرف ہم سب کی پہچان کے مختلف نام ہیں- دراصل ہر طرف ہمارا اپنا ہی عکس ہے جو ہمیں نظر آتا ہے- ہم ہی میں سے کچھ نے پڑھانا شروع کر دیا تو وہ استاد کہلایا، یونیفارم پہن لی تو پولیس کہلایا، سفید کوٹ پہن لیا تو ڈاکٹر ، الیکشن لڑ لیا تو سیاستدان –
جب ہم اپنے بچے کو اس کی غلطی پر ڈانتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ اس کی تربیت ہمارے اپنے گھر میں ہو رہی ہے اور ہم ہی اس کی اچھائی یا برائی کے ذمہ دار ہیں- بیٹا ، بیٹی اپنے ماں باپ کا عکس ہوتے ہیں – گھر معاشرے کا بنیادی یونٹ ہے – اس یونٹ کو بڑا کر دیں تو یہ شہر اور ملک بن جاتا ہے- ہم سب کی تربیت ،رہن سہن یکجا ہو کر ایک معاشرہ بن جاتا ہے- ہم سب اس گردش عیاں کا حصہ ہیں-